آج کے انسان نے بے حد ترقی کرلی ہے مگر اس ترقی کے جہاں ثمرات حاصل ہوئے وہیں بے شمار نقصانات بھی اٹھانے پڑے ہیں ۔ہم انسان کو درپیش دیگر مسائل کی بات کرتے ہیں تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ ماحول جس میں ہم سانس لے رہے ہیں اس کی بات نہ کی جائے ۔صنعتی انقلاب نے جہاں ہماری زندگیوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا وہیں ماحول میں بھی بے شمار تبدیلیاں رونما ہوئیں اور انہی تبدیلیوں میں سے ایک ماحولیاتی آلودگی بھی ہے
سردیوں کے موسم میں ہم آئے دن خبروں میں سنتے ہیں کہ کل عالم سموگ کی لپیٹ میں ہیں اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں بھی سننے میں آتا رہتاہے۔ آلودگی بذات خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے مگر اس کے نتائج میں سے ایک بھیانک نتیجہ سموگ بھی ہے ۔
عام آدمی کے لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ سموگ کیا ہے ؟اس کے اثرات اور اس سے بچاو کی تدابیر کیا کیا ہیں ؟
لفظ سموگ انگریزی زبان کے الفاظ ”سموک “اور ”فوگ“سے نکلا ہے ۔
جس کا مطلب ہے ”دھواں ملی آلودہ دھند ہے “سردیوں میں ہوا میں موجود نمی درجہ حرارت میں کمی کے باعث منجمد ہونا شروع ہو جاتی ہے جسے ہم کنڈ ینسیشن کا عمل کہتے ہیں جو عمل تبخیر کا اُلٹ ہوتا ہے ۔تاہم ہوا میں موجود نمی موسم سرما میں سفید رنگ کی دھند کا باعث بنتی ہے جو کہ عمومی سی بات ہے ۔
مگر خطرے کی بات یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے یہ دھند آلودہ ہونا شروع ہو گئی ہے اور اس دھوئیں سے مل کر یہ زہریلی دھند بنا دیتی ہے ۔
سموگ عام طور پر کار بن ڈائی آکسائیڈ ،کاربن مونو آکسائیڈ اور فضا میں ہائیڈروکاربنز کی بڑی مقدار میں موجود گی کے باعث بنتی ہے ۔یہ عناصر عام طور پر گاڑیوں کے دھوئیں میں موجود ہوتے ہیں جو فضا میں سورج کی روشنی کی موجودگی میں ری ایکشن کرکے پیلی یا گدلے رنگ کی دھند پیدا کرتے ہیں جو حد نگاہ کو خطر ناک حد تک کم کر دیتی ہے ۔
آئے دن ہم خبروں میں سنتے ہیں کہ سموگ کی وجہ سے حد نگاہ بہت کم ہونے کے باعث گاڑیوں میں تصادم ہو گیا جس کی وجہ سے بے شمار مالی اور جانی نقصانات ہوتے رہتے ہیں ۔
سموگ نہ صرف ٹریفک کے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے بلکہ یہ سانس اور جلد کی بیماریوں کا بھی موجب بن رہی ہے بچوں اور بوڑھوں کو خصوصاً سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ۔وہ دمہ،برونکائٹس اور پھیپھڑوں کے دیگر عارضوں میں بھی مبتلا ہو سکتے ہیں سموگ دل کے عارضے اور یادداشت کی کمزوری کے عارضے ”الزائمر“کا بھی سبب بن سکتی ہے۔
ماں کے بطن میں پلنے والے بچے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں ان کی آنکھوں اور جلد کو بے حد نقصان پہنچ سکتا ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق کم وبیش ملک کے اسی فیصد لوگ آلودہ فضا میں سانس لے رہے ہیں تاہم حکومتی سطح پر سموگ کے خاتمے کے لئے اقدامات ہونے چاہیے ۔جن علاقوں میں درخت کم ہیں وہاں زیادہ سے زیادہ شجر کاری کی جائے ۔پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنایا جائے تا کہ ذاتی گاڑیوں کا استعمال کم ہو۔عوام کی آگہی کے لیے مہم چلائی جائے جس میں لوگوں کو سموگ سے بچاو کی تدابیر بتائی جائیں ۔
اگر حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی تو ہمیں قومی اور ذاتی طور پر اقدامات کرنے چاہیے جیسے کہ دھند کے اوقات میں دروازے کھڑکیاں بند رکھیں ۔بچوں اور بوڑھوں کا خاص خیال رکھیں ،باہر نکلتے وقت چہرے کو ماسک سے ڈھانپ لیں ،پوری آستینوں والے کپڑے پہنیں ،گاڑیوں اور دھواں پیدا کرنے والی چیزوں کا کم سے کم استعمال کریں ۔ہمیں عوامی سطح پر ہی اس سموگ سے لڑنا ہو گا کیونکہ حکومت کا رویہ تو انسانی زندگی کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہے ۔
میں نے کہا کہ درد ہے اس نے کہا ہوا کرے
میں نے کہا کہ مرتا ہوں اس نے کہا مرا کرے
میں نے کہا کہ سانس بھی رک رک کے آرہی ہے آج
ایسا نہ ہو کہ چل بسوں اس نے کہا خدا کرے
No comments:
Post a Comment