واشنگٹن: امریکی صدارتی انتخاب میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور 538 الیکٹورل ووٹس میں سے 264 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے کے بعد ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن فیصلہ کن فتح کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ امریکا میں صدارتی امیدوار کی حتمی فتح کےلیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ 270 یا زیادہ الیکٹورل ووٹس حاصل کرے۔
دوسری جانب موجودہ امریکی صدر اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ 214 الیکٹورل ووٹس حاصل کرسکے ہیں۔ اب ان کی جیت کا مکمل دار و مدار سوئنگ اسٹیٹس پر ہے۔ البتہ امریکی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ کو سوئنگ اسٹیٹس سے بھی تمام الیکٹورل ووٹس مل جائیں تب بھی وہ مجموعی طور پر 268 الیکٹورل ووٹ ہی حاصل کرپائیں گے۔
جو بائیڈن اگرچہ اپنی فتح کےلیے بہت پرامید ہیں لیکن انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ جب تک مکمل نتائج نہیں آجاتے، تب تک وہ اپنی فتح کا اعلان بھی نہیں کریں گے۔
قبل ازیں ٹرمپ کی انتخابی مہم کے مینیجر نے اعلان کیا تھا کہ وسکونسن میں دھاندلی ہوئی ہے اور ٹرمپ وہاں دوبارہ گنتی کی باضابطہ درخواست دائر کریں گے جبکہ ٹرمپ کمپین ٹیم نے ریاست مشی گین میں ووٹوں کی گنتی رکوانے کےلیے عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ علاوہ ازیں ٹرمپ کی ٹیم نے پنسلوانیا میں بھی گنتی رکوانے کےلیے عدالت جانے کا اعلان کردیا گیا ہے۔
حالیہ امریکی صدارتی انتخاب میں عوامی جوش و خروش بہت نمایاں ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جو بائیڈن وہ پہلے صدارتی امیدوار بن چکے ہیں جنہوں نے 7 کروڑ سے زیادہ عوامی ووٹ حاصل کیے ہیں۔ لیکن ٹرمپ بھی 6 کروڑ 86 لاکھ ووٹ حاصل کرچکے ہیں۔ اس طرح دونوں صدارتی امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد میں صرف 2.4 فیصد کا فرق ہے۔
دریں اثنا ڈیلاویئر سے سارہ میک برائیڈ نامی ایک ٹرانس جینڈر نے امریکی سینیٹ کی نشست جیت لی، یہ بھی امریکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔
یہی نہیں بلکہ نارتھ ڈکوٹا سے ایک ایسے امیدوار کو فاتح قرار دیا جاچکا ہے جو ایک ماہ پہلے ہی کورونا وائرس کی وجہ سے انتقال کرچکا تھا۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں نے وائٹ ہاؤس کے باہر ٹرمپ کے خلاف احتجاج کیا جبکہ مختلف مقامات پر ٹرمپ اور جو بائیڈن کے حامیوں نے علیحدہ علیحدہ مظاہرے بھی کیے۔
No comments:
Post a Comment